بقلم عارف بلتستانی
حوزہ نیوز ایجنسی । یہ ایک فلم کا منظر ہے۔ دو جوان قید خانے میں تھے۔ ایک کا کہنا تھا کہ ہم یہاں سے فرار کریں ۔ دوسرا کہہ رہا تھا ہمیں فرار کے بجائے دشمن کو اس کی کوئی پسندیدہ چیز پیش کرنی چاہیے اور جب وہ اس جال میں پھنس جائے تب ہم اس پر حملہ آور ہوں ۔ اس نے " چینی دانشور سن زو " کا مشہور جملہ دہرایا "کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تم دشمن کے فلسفہ حیات پر حملہ کرو ۔" اس جملے کو سنتے ہی پہلا جوان چونک گیا اور بولا " آہستہ سے کوئی سن نہ لے ۔ پہلے والا بولا جو بات آج اندھیرے میں کہنے سے ڈر رہے ہو کل زبان زد عام ہوجائے گی۔
اس مکالمے نے مجھے بھی مبہوت کر دیا ۔ فیلم ختم ہوتے ہی میں نے موبائل آن کیا۔ وٹس ایپ میں ایک کالم پر میری نظر پڑی ۔ جسکا موضوع " سوچ کا سفر " تھا ۔ مقدرعباس نے یہ کالم لکھا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ " امت مسلمہ کے تمام مسائل کی جڑ ، یہی چیمپئن ( امریکہ ) ہے ۔ اسرائیل کے ناجائز وجود سے لیکر داعش کی خونریزیوں تک اور آج کی حالیہ صورت حال میں یہ ہر دیکھنے والی آنکھ جان چکی ہے کہ اصل فساد کی جڑ کون ہے ؟ فلسطین ، شام ، یمن ، عراق ، افغانستان اور چلاس ، مچھ ، پشاور سے لیکر آج تک کی ساری خونریز داستانوں میں اس ، انسانی حقوق بشر کے جھوٹے دعویدار کے ہاتھ ( خون سے ) رنگے ہوئے ہیں ۔ "
انہوں نے مزید لکھا کہ "اس صاحب بہادر نے ہر ملک کی خود مختاری اور اندرونی معاملات میں مداخلت جاری رکھی ، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ملک عزیز ، مادر وطن پاکستان کو اب تک آزاد خارجہ پالیسی نہ بنانے دی اور ایسا غلامی کا طوق پہنایا کہ جب بھی ایک بات مانتے ، ساتھ ہی ڈومور کا مطالبہ بھی آجاتا ۔ اگر کوئی خود مختار ہونے کی بات کرتا تو اسی ملک کے رہنے والوں کو اس کے مقابل لاکر تختہ دار پر چڑھا دیتا اور جب اپنے نوکروں سے کام نکلوا لیتا تو ان کا حشر وہی کرتا جو قذافی ، حسنی مبارک اور صدام کیساتھ کیا ۔ یہ مارنے والوں کو اسلحہ بیچتا اور پھر خون آلود ہاتھوں پر ریشمی دستانے پہن کر جنٹلمین بن کر مددکرنے بھی پہنچ جاتا ۔ " میں سنیما ہال کے دروازے سے ٹیک لگا کر تحریر پڑھ رہا تھا ۔
میں اس تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ " داعش کو وجود دینے والا یہی ہے ۔ شام و عراق کو تباہی کی زد میں لاکر وہاں سے تیل چوری کرنے والا جنٹلمین یہی ہے ۔ جس نے دوسرے ملک کی سرزمین پر مداخلت کرکے عالم اسلام کے عظیم کمانڈر کو خون میں غلطاں کیا ۔ کونسا ملک ہے جو اس کے شر سے محفوظ رہا ہے ۔ یہ شر مطلق ہے جس سے خیر کی کوئی توقع نہیں ۔ ملک کے سابقہ وزیر دفاع کا بیان پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا اور ساتھ یہ جملہ بھی یاد آیا کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے ۔ تمھارا خدا لگتا ہے امریکہ ہے کہ جس سے روٹھ جانے سے تمہارے وینٹی لیٹر بند ہو رہے ہیں ۔ ہمارے جو جوان اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں اس کے روٹھ جانے سے ہمیں نقصان ہو گا تو ان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اس کی مان لینے سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔سختیوں میں ہی مردوں کے جوہر کھلتے ہیں ۔ "
انہوں نے فیصلہ کن انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ " ہمیں سیاسی پارٹی بازیوں سے نکل کر ایک قوم بن کر فیصلہ کرنا کہ عزت کی راہ کے راہی بننا یا ذلت کی کالک کو اپنے منہ پر ملنا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ملک نے بھی اس سے چھٹکارا حاصل کیا ہے وہ مستقل بنیادوں پر اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر لا رہا ہے۔ ان کے سامنے جھکنے کی قیمت ، ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے زیادہ ہے۔اگر جھک جائیں گے تو پھر ڈو مور کہے گا ۔ ملک پاکستان کے موجودہ تناظر میں ہماری قوم کو ملکی مفاد کی خاطر حقیقی معنوں میں ایک قوم بننا ہے ۔ جوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں ۔ خدا پر یقین کامل رکھتے ہوئے ایک قوم بنیں اور جو پاکستان کی خودمختاری کی بات کرے اس کا ساتھ دیں ۔ جو قومیں اپنی تقدیر خود بناتی ہیں وہی کامیاب رہتی ہیں ۔ ابھی تک کے تجربے نے یہی ثابت کیا ہمیں امریکی غلامی سے نکل کر ، ملکی خود مختاری اور سلامتی کی خاطر ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہے ۔ نظریات حکومت کرتے ہیں ہتھیار نہیں ۔ "
موصوف کی تحریر پڑھنے کے بعد دوست کے ساتھ کافی پینے چلا ۔ کافی کا آرڈر دے کر ہم کرسی پر بیٹھ گئے اور خبریں دیکھنا شروع کیں ۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں لائیو اجلاس جاری تھا ۔ وزیر قانون اپنا بیان ریکارڈ کروا رہا تھا ۔ ایسے میں پارلیمینٹ میں یہ نعرے گونجنے لگے : امریکہ کا جو یار ہے ۔۔۔۔ غدار ہے غدار ہے ۔۔۔ یہ نعرے سنتے ہی مجھے فلم کا وہ مکالمہ یاد آ گیا کہ " جو بات آج اندھیرے میں کہنے سے ڈر رہے ہو کل زبان زد عام ہو گی ۔ " یہ نعرہ وہی نعرہ ہے جو کئی سال پہلے کچھ نوجوان گلی کوچوں میں اور خصوصاً سولہ(16) مئی کو سڑکوں پر نکل کر لگاتے پھرتے تھے ۔ آج یہ نعرہ پاکستان کی اسمبلی میں گونج رہا ہے ۔ یہ نعرہ اسمبلی تک یونہی نہیں پہنچا اس کے پیچھے ایک پوری شعوری تحریک اور قربانیوں کی داستان ہے ۔ ہمارے سلام ہوں ان نوجوانوں پر جن کی دوراندیشی نے پاکستان کے ایوانوں میں اپنی حقانیت کا لوہا منوا لیا ہے ۔ اب یہ ہم سب پر ہے کہ ہم اس نعرے کو اس کی فکری بنیادوں پر کام کر کے پاکستان میں مزید مستحکم کریں یا یہ نعرہ صرف ہواوں میں گونجتا رہے ۔ اس نعرے کو ابھی حلق سے نیچے اتارنے کی ضرورت ہے۔